Saturday, November 16, 2013

جناب امجد اسلام امجد




غزل
تیری زد سے نکلنا چاہتا ہے
یہ دریا رخ بدلنا چاہتا ہے

وہ سپنا جس کی صورت ہی نہیں ہے
میری آنکھوں میں پلنا چاہتا ہے

دِلوں کی ماندگی پہ کیا تعجب
کہ سورج بھی تو ڈھلنا چاہتا ہے

نشستِ درد بدلی ہے تو اب دل
ذرا پہلو بدلنا چاہتا ہے

ہوا ہے بند اور شعلہ وفا کا
بہت ہی تیز جلنا چاہتا ہے

یہ دل اس گرد بادِ زندگی میں
بس اک لمحہ سنبھلنا چاہتا ہے

مجہے بھی سامنا ہے کربلا کا
میرا سر بھی اچھلنا چاہتا ہے

نہیں ہیں ترجمانِ غم یہ آنسو
یہ پانی اب ابلنا چاہتا ہے

گزشتہ صحبتوں کا ایک لشکر
مرے ہمراہ چلنا چاہتا ہے

اُن آنکھوں کی ادا کہتی ہے امجد
کوئی پتھر پگھلنا چاہتا ہے

No comments:

Post a Comment