تیری زد سے نکلنا چاہتا ہے
یہ دریا رخ بدلنا چاہتا ہے
وہ سپنا جس کی صورت ہی نہیں ہے
میری آنکھوں میں پلنا چاہتا ہے
دِلوں کی ماندگی پہ کیا تعجب
کہ سورج بھی تو ڈھلنا چاہتا ہے
نشستِ درد بدلی ہے تو اب دل
ذرا پہلو بدلنا چاہتا ہے
ہوا ہے بند اور شعلہ وفا کا
بہت ہی تیز جلنا چاہتا ہے
یہ دل اس گرد بادِ زندگی میں
بس اک لمحہ سنبھلنا چاہتا ہے
مجہے بھی سامنا ہے کربلا کا
میرا سر بھی اچھلنا چاہتا ہے
نہیں ہیں ترجمانِ غم یہ آنسو
یہ پانی اب ابلنا چاہتا ہے
گزشتہ صحبتوں کا ایک لشکر
مرے ہمراہ چلنا چاہتا ہے
اُن آنکھوں کی ادا کہتی ہے امجد
کوئی پتھر پگھلنا چاہتا ہے
یہ دریا رخ بدلنا چاہتا ہے
وہ سپنا جس کی صورت ہی نہیں ہے
میری آنکھوں میں پلنا چاہتا ہے
دِلوں کی ماندگی پہ کیا تعجب
کہ سورج بھی تو ڈھلنا چاہتا ہے
نشستِ درد بدلی ہے تو اب دل
ذرا پہلو بدلنا چاہتا ہے
ہوا ہے بند اور شعلہ وفا کا
بہت ہی تیز جلنا چاہتا ہے
یہ دل اس گرد بادِ زندگی میں
بس اک لمحہ سنبھلنا چاہتا ہے
مجہے بھی سامنا ہے کربلا کا
میرا سر بھی اچھلنا چاہتا ہے
نہیں ہیں ترجمانِ غم یہ آنسو
یہ پانی اب ابلنا چاہتا ہے
گزشتہ صحبتوں کا ایک لشکر
مرے ہمراہ چلنا چاہتا ہے
اُن آنکھوں کی ادا کہتی ہے امجد
کوئی پتھر پگھلنا چاہتا ہے
No comments:
Post a Comment