Monday, August 11, 2014














میں یہ کس کے نام لکھوں ،جو علم گزر رہے ہیں ،
میرے شہر جل رہے ہیں ،میرے لوگ مر رہے ہیں


کوئی غنچہ ہو کے گل ہو ،کوئی شاخ ہو شجر ہو ،
وہ ہوائے گلستان ہے ،کہ سبھی بکھر رہے  ہیں


کبھی رحمتیں تھی نازل اسی کھیتیئے  زمیں  پر ،
وہی کھیتیے زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں


وہی طائروں کی جھرمٹ جو ہوا  میں جھولتے  تھے  ،
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب  آہ بھر  رہے ہیں


بڑی آرزو  تھی  ہمکو،نیۓ خواب دیکھنے کی ،
سو اب اپنی زندگی میں نیے خواب بھر رہے ہیں


کوئی اور تو نہیں ہے  پس  خنجر   آزمائی،
ہم ہی قتل ہو رہے ہیں ،ہم ہی قتل کر رہے  ہیں


  جناب عبید اللہ علیم    



No comments:

Post a Comment